Saturday 9 February 2013

پھر تقابل میں خجالت کے کھلونے آئے

پھر تقابل میں خجالت کے کھلونے آئے
ہاتھ میں سنگ اُٹھائے ہوئے بونے آئے

یوں تو اب بھی ترے خط ڈاک میں مل جاتے ہیں
کوئی تحریر تو آنکھوں کو بھگونے آئے

اس سے پہلے کہ کڑی دھوپ میں میلا ہو بدن
تو اسے لمس کی خوشبو سے بھی دھونے آئے

دھیان میں پھر سے گئی رُت کے سہانے سپنے
کرب کے گہرے سمندر میں ڈبونے آئے

قرب بھی جس کا رہا ہجر کے صحرا کی طرح
اب وہ جذبہ مرے بستر پہ نہ سونے آئے

پھر فریبوں نے دلِ زار کو زنجیر کیا
پھر مجھے حرفِ تسلی کے کھلونے آئے

میں ترے پھول سے انگاروں کو چھو کر تڑپوں
تیرا بچپن مرے گھر دودھ بلونے آئے

ان کہے لفظ نہ چہرے پہ برہنہ ہو جائیں
تیری آنکھوں میں مرا خواب نہ رونے آئے

کس کو اُفتاد پڑی ہے کہ اُٹھائے خفت
کون اس شہر میں اب نیکیاں ڈھونے آئے

آئے بے شک ترے آنگن میں چراغاں کرنے
اپنی پہچان کوئی ہم سا نہ کھونے آئے

التجا ہے نئے موسم کی نمو سے احمد
بے ثمر پیڑ مرے گھر میں نہ بونے آئے

No comments:

Post a Comment